راولپنڈی ( پوٹھوہار ٹائمز ) ابلاغ کے جدید ذرائع کے توسط سے ہمارے معاشرے میں پھیلنے والے معربی و ہندووانہ کلچر کو کنٹرول کرنے کیلئے مقامی ثقافت کو اجاگر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسل اپنے علاقائی تہذیب و کلچر کے ساتھ جڑ کر اپنی معاشرتی و خاندانی اقدار پر عمل پیرا ہو. پوٹھوہار کی تہذیب اور کلچر اپنے اندر بے شمار اعلی اخلاقی پہلورکھتے ہیں جو مغربی کلچر کے تحت پھیلنے والی خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور دیگر معاشرتی خرابیوں کو ختم کر سکتے ہیں. ان خیالا ت کا اظہار مقررین نے یاران صحافت و ادب کے زیر اھتمام پاک میڈیا فاوئنڈیشن اسلام آباد میں ممتاز لکھاری ظہیر اقبال چودھری کی پوٹھوھاری ریڈیو فیچرز کی کتاب”ماسی کیدو”پر ایک مکالماتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا. تقریب کی صدارت ممتاز افسانہ نگار حکیم عبدالروئف کیانی نے کی،جبکہ مہمانان خصوصی میں یاسر کیانی،نعمان رزاق وڑائچ،عابد حسین جنجوعہ،عاصمہ گل اور ریڈیو و سٹیج کی ممتاز فنکارہ شہناز خان(ماسی کیدو)شامل تھیں. معروف صحافی اور استاد ڈاکٹر زاھد حسن چغتائی نے میزبانی کے فرائض انجام دئیے.مقررین نے فیچرز کی ادبی و صحافتی صنف سخن کی تعریف کرتے ھوئے اسے اردو زبان کی کوکھ سے جنم لینے کا سزاوار بتایا اور پوٹھوھاری زبان میں اسے رائج کرنے کا تمام تر کریڈٹ ریڈیو پاکستان کو دیا۔انہوں نے زیر نظر کتاب کو پوٹھوھاری ادب میں ھوا کا ایک گرم جوش جھونکا قرار دیا اور ظہیر چودھری کے لکھے ھوئے ان فیچرز کو طبع زاد ڈرامے بھی قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان فیچرز/ڈراموں کی زبان و بیان اور کرداروں میں جو تنوع ھے وہ پوٹھوھاری زبان کی طبع زاد خوشگوریت اور حس مزاح سے مشتق ھے۔انہوں نے کہا کہ پوٹھوھاری زبان سے دلچسپی رکھنے والوں کو موجودہ نہج پر اس زبان کی ایک یونیورسٹی قائم کروانی چاہیئے تاکہ اس زبان میں تحقیق و تنقید کے کام کو تیز تر کر کے رواج دیا جاسکے۔یونیورسٹی کے قیام کے بعد صوبہ پوٹھوھار کی جدو جہد بھی تیز تر ھو سکے گی۔ڈاکٹر زاھد حسن چغتائی نے پوٹھوھاری زبان کی ترقی کی تگ و دو تیز تر کرنے کے لیئے اس زبان کے مختلف اصناف سخن کے قواعد مرتب کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پوٹھوھاری زبان اور ادب اس وقت شدت کے ساتھ اپنے کسی سرسید کا انتظار کر رھا ھے۔مہمان خصوصی یاسر کیانی نے پوٹھوھاری زبان و ادب کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے پوٹھوہاری زبان و ادب میں آہ اور واہ کی کیفیات کو اجاگر کیا۔نعمان رزاق وڑائچ نے پوٹھوھاری زبان و ادب کے زمینی اور آفاقی رشتوں پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سارا خطہء پوٹھوھار اپنی ماں بولی کے فطری طلسم ھوشربا میں گرفتار ھے۔فرزند علی ھاشمی نے ظہیر چودھری کے فیچرز کی ادبی حیثیت واضح کرتے ھوئے اسے ایک سنگ میل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا اس زبان کو اپنا کر ھی ھم ایک مثالی پاکستانی بن سکتے ھیں۔ممتاز براڈ کاسٹر،لکھاری اور شاعر عابد جنجوعہ نے پوٹھوھاری زبان کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کو ایک ایسی واردات قرار دیا۔انہوں نے کتاب ماسی کیدو کے فیچرز کی ریکارڈنگ کے خوشگوار مراحل پر بھی روشنی ڈالی۔جس میں وہ خود شریک رھے۔مہمان خصوصی عاصمہ گل نے زیر مکالمہ پوٹھوھاری فیچرز کو ادب پارے قرار دیتے ھوئے ظہیر چودھری کو بحیثیت لکھاری اپنا کام تیز تر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ممتاز ریڈیو لکھاری اور افسانہ نگار حمید قیصر ممتاز،ریڈیو فنکارہ اور ماسی کیدو کا کردار نبھانے والی شہناز خان، زیدی،تسنیم اکرام،محمد اظہر،شوکت ملک،محمد عارف،راجا ارشد نکیال اور شاھد قیوم مرزا نے بھی پوٹھوھاری فیچرز پر تنقیدی رائے زنی کی اور کہا پوٹھوھاری زبان و ادب کے ارتقاء کی اس نہج پر اھل پوٹھوھار کا ھی نہیں بلکہ اس کے سب لکھاریوں اور فنکاروں کا ایک صف میں اکٹھا ھونا از حد ناگزیر ھے.
………………………………………………………..