کہیں دور نہ جائیں ابھی چند ماہ پہلے کی ہی بات ہے جب گزشتہ ستمبر میں اٹھارہ سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان کے دورے پر آنے والی کیوی کرکٹ ٹیم بغیر کوئی میچ کھیلے سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر واپس چلی گئی۔ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ سے عین قبل انگلینڈ نے بھی پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ تو اہلیان وطن، حکومت پاکستان، کھلاڑیوں اور شائقین کرکٹ سمیت پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین سابقہ کرکٹر اور نامور کمنٹیٹر رمیز راجہ کا غم وغصہ بجا تھا۔ ایک بار ایسا لگا کہ شاید پچھلی ایک دہائی میں کی گئی تمام محنت رائگاں جائے گی۔ اور پاکستان میں کرکٹ واپسی دیوانے کا خواب لگنے لگا۔ لیکن قدرت نے اس پاک وطن کے خمیر میں بھی باقی دنیا سے کچھ الگ ہی رکھا ہے۔ بابر اعظم کی کپتانی میں گرین شرٹس نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو اس سے پہلے کوئی پاکستانی ٹیم نہ کر پائی تھی۔ ٹیم پاکستان نے ورلڈ کپ کے اپنے پہلے مقابلے میں ہی ہندوستان کو ناکوں چنے چبوائے اور کھیل کے تمام شعبوں میں آؤٹ کلاس کر کے رکھ دیا۔ پھر جہاں نیوزی لینڈ کی سیکیورٹی کا مسئلہ حل کیا وہیں افغانی غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ وہ ٹیم جس کا کوئی نام نہیں لے رہا تھا اس نے کرکٹ پنڈتوں کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ بالآخر سیمی فائنل میں اعصاب شکن مقابلے کے بعد کینگروز نے شاہینوں کے پر کتر دئیے۔ بابر اعظم کی ٹیم فائنل میں ٹرافی تو نہ اٹھا سکی مگر دنیائے کرکٹ کی توجہ کا مرکز ضرور بنی اور تماشائیوں کے دل جیت لیے۔ کرکٹ ماہرین نے اس کامیابی کا سہرا پاکستان سپر لیگ کے سر باندھا تو نامی گرامی کھلاڑی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان کو کرکٹ سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ سب سے پہلے کینگروز نے یقین دلایا کہ وہ اپنا مجوزہ دورہِ پاکستان یقیناً کریں گے۔ پھر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ بھی رواں برس پاکستان آئیں گے۔ پی ایس ایل کا میلہ لاہور قلندرز نے لوٹا تو کینگروز بھی گرین شرٹس سے مقابلے کے لیے چوبیس سال کے بعد پاکستان وارد ہو چکے تھے۔ تین میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ راولپنڈی میں جاری ہے۔ بابر اعظم کا ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ نوجوان اوپنر عبداللہ شفیق اور امام الحق نے درست ثابت کیا۔ عبداللہ شفیق چوالیس رنز بنا کر اسپنر ناتھن لیون کی بال پر کپتان پیٹ کمنز کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے تو نمبر تین پر آنے والے تجربہ کار اظہر علی نے بھی رنز کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ امام الحق نے اپنے کیریئر کی پہلی سینچری بنانے کے ساتھ ساتھ پہلی وکٹ کی شراکت میں 105 اور اظہر علی کے ساتھ دوسری وکٹ کی پارٹنر شپ میں بھی 208 رنز کا اضافہ کیا۔ 313 کے مجموعی اسکور پر آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کی ریورس سوئنگ پر امام الحق 157 اسکور بنا کر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے تو کپتان بابر اعظم نے بھی اظہر علی کے ساتھ سینچری شراکت قائم کر ڈالی۔ لیکن بدقسمتی سے بابر اعظم 36 کے انفرادی اسکور پر ایک تیز رنز لیتے ہوئے Labuschagne کی ڈائریکٹ تھرو کا شکار ہو گئے۔ کینگرو آل راؤنڈر Labuschagne نے ہی کیمرون گرین کے ہاتھوں اظہر علی کو کیچ آؤٹ کروا کر یقینی ڈبل سینچری سے محروم کر دیا۔ تین چھکوں اور پندرہ چوکوں سے مزین اظہر علی کی 185 رنز کی شاندار اننگز ان کے کیریئر کا انیسواں سو تھا۔ یوں وہ یونس خان انضمام الحق محمد یوسف اور جاوید میانداد کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ سینچریاں اسکور کرنے والے پاکستان کے پانچویں بیٹسمین بن گئے۔ 476 کے اسکور پر کپتان بابر اعظم نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا تو وکٹ کیپر محمد رضوان 29 اور افتخار احمد 13 اسکور پر ناٹ آؤٹ رہے۔ دوسرے دن جب کم روشنی کے باعث کھیل ختم ہوا تو آسٹریلیا نے بغیر کسی نقصان کے پانچ رنز بنا لیے تھے۔ راولپنڈی کی وکٹ اپنے باؤنس کی وجہ سے تیز گیند بازوں کی ہمیشہ مددگار رہی ہے۔ اسی لیے آسٹریلیا تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترا لیکن گزشتہ دو دن پچ کا رویہ اس کے ماضی سے بالکل مختلف رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آسٹریلیا چوک گیا ہے۔ مگر دوسری طرف ٹیم پاکستان میں تین اسپنرز کھیل رہے ہیں جو کھیل کا پانسہ پلٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر موسم نے رنگ میں بھنگ نہ ڈالا یقینی طور پر بہت دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ برسوں سے ترسے ہوئے تماشائیوں کی کثیر تعداد میں اسٹیڈیم آمد اس بات بھی کی نوید سنا رہی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کا مستقل روشن ہے۔