اسلام آباد(پوٹھوہار ٹائمز)پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں ’ امر بالمعروف ‘ جلسے سے خطاب میں عمران خان نے بیرونی سازش کا انکشاف کیا اور عوام کے سامنے خط لہرادیا ۔انہوں نےجیب سے خط نکال کر لہراتےہوئے کہا کہ قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، الزام نہیں لگارہا ہوں،ان کے پاس ثبوت کے طور پر خط موجود ہے، بہت سی باتیں ہیں ، بہت جلد اور مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔وزیراعظم نے مزید کہاکہ کوئی بھی شک کرے گا، اسے دعوت دوں گا کہ آف دی ریکارڈ دیکھ سکے گا ،بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر بہت جلد سامنے لائی جائیں گی۔اُن کا کہنا تھاکہ میں ہر چیز ظاہر کررہاہوں ، جو میرے پاس ثبوت ہے ،کوشش ہوتی ہے کہ کو ئی ایسی بات نہ کردوں کہ میرے ملک کو نقصان پہنچے ۔انہوں نے کہا کہ آج پھر وہی سازش ہورہی ہے ،جو بھٹو کے خلاف ہوئی ، سازش کا ہمیں 3 ماہ سے پتہ ہے،،ہمیں پتہ ہے کہ باہر سے کن کن جگہوں سے ہم پر دباو ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔یادرہے یہ پہلا خط نہیں جو وزیر اعظم عمران خان نے پریڈ گراونڈ جلسے میں لہرایا۔
وزیر اعظم عمران خان دوسرے وزیراعظم ہیں جنہوں نے دھمکی آمیز خط لہرایا
اس سے قبل پاکستان کے سابق وزیر اعلیٰ ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی
کے راجہ بازار میں امریکی وزیر خارجہ کا خط دھمکی آمیز خط لہرایا تھا۔
۔1977ءمیں ملک گیر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف متحدہ اپوزیشن، پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے اختتامی دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ سائرس وین کا وہ خط پنڈی کے راجہ بازار کے ایک عوامی اجتماع میں لہرا دیا جس میں بقول ان کے ایٹمی پروگرام سے باز ررہنے وگرنہ نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔اس سے قبل فروری 1974ء میں اسلامی کانفرنس کے اختتام پر وزیر اعظم بھٹو نے قذافی اسٹیڈیم میں لیبیا کے جواں سال کرنل معمر قذافی (جو شاہ ادریس کا اقتدار ختم کرکے نئے نئے اقتدار میں آئے تھے ) کے ہمراہ جلسہ عام سے خطاب کرتے اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کو للکارتے لاہوری مجمعے سے بہت جذباتی انداز میں بھارت کے خلاف لڑنے مرنے کا پرجوش عہد لیا کہ یہ ان کی عملی سیاست کا خصوصی فیچر تھا۔
اس ساری صورتحال کے بعد ملکی حالات کشیدہ ہونا شروع ہوگئے اور ملک مارشل لاء کی طرف چلا گیا ۔اس وقت وزیر اعظم عمران خان بھی امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے حامی ہیں اور اس پر وہ کافی حد تک کام بھی کرچکے ہیں اس وقت عالمی طاقتوں کو ان کا یہ طرز عمل برداشت نہیں اور یہ خط قوی امکان ہے کہ امریکہ کی طرف سے ہی ہوگا کہ پاکستان میں اس سے اب عمران خان قبول نہیں۔